وحشت کے کارخانے سے تازہ غزل نکال
اے صبر کے درخت مِرا میٹھا پھل نکال
کاغذ کے پیراہن میں بدن پھول جیسا رکھ
کیچڑ سے اپنی آنکھوں کی چہرہ کنول نکال
میں سیدھا راستہ ہوں تو مڑ جا مِری طرف
گمبھیر مسئلہ ہوں تو سادہ سا حل نکال
دل کو جلا کڑھا کے بنا لے ہنسی کی شکل
آنکھیں بدل بدل کے یہ ماتھے کا بل نکال
جس میں گذشتہ راتوں کی تاریکیاں نہ ہوں
امید کی کرن سے کوئی ایسا کل نکال
کب تک میں التوا کی ہزیمت پہ خرچ ہوں
اب میری شان میں کوئی فرصت کا پل نکال
عمار اقبال
No comments:
Post a Comment