Monday 28 March 2022

یہی تھکن کہ جو ان بستیوں پہ چھائی ہے

 ہم اہل خوف


یہی تھکن کہ جو ان بستیوں پہ چھائی ہے

اتر نہ جائے پرندوں کے شہپروں میں بھی

یہ ٹوٹے پھوٹے مکانات اونگھتے چھپر

چراغ شام کی دھندلی سی روشنی کے امیں

نہ ان کا یار کوئی ہے نہ کوئی نکتہ چیں

نہ جانے کب کوئی دست ستم ادھر آ جائے

اور اس ذرا سی بچی روشنی کو کھا جائے

یہ کھلکھلاتے ہوئے ہنستے مسکراتے لوگ

بسوں میں ریلوں میں منزل کی سمت جاتے لوگ

کوئی دھماکہ انہیں جانے کب اڑا جائے

لہو کے دھبوں پہ افسوس کرتا حاکم شہر

اور اس کے بعد محبت پہ چند تقریریں

جو اہل شہر کی پیشانیوں پہ روشن ہیں

ملال یہ ہے کہ اس کو کوئی نہ دیکھے گا

ہم اہل خوف کے سینوں میں جو دھڑکتا ہے


اسعد بدایونی

No comments:

Post a Comment