اسے بارشوں نے چرا لیا کہ وہ بادلوں کا مکین تھا
کبھی مڑ کے یہ بھی تو دیکھتا کہ مِرا وجود زمین تھا
وہی ایک سچ تھا اور اس کے بعد کی ساری تہمتیں جھوٹ ہیں
مِرے دل کو پورا یقین ہے وہ محبتوں کا امین تھا
اسے شوق تھا کہ کسی جزیرے پہ اس کے نام کا پھول ہو
مجھے پیار کرنا سکھا گیا مِرا دوست کتنا ذہین تھا
کبھی ساحلوں پہ پھرو گے تو تمہیں سیپیاں ہی بتائیں گی
مِری آنکھ میں جو سمٹ گیا وہی اشک سب سے حسین تھا
تجھے کس طرح سے خبر ہوئی کہ مِری حیات سنور گئی
ذرا اپنے دل سے تو پوچھ لے یہ گمان تھا کہ یقین تھا
حنا سمیع
No comments:
Post a Comment