پھر بھی نہ بے کلی گئی پھر بھی نہ بے دلی گئی
ہجر کا دن بھی کٹ گیا، وصل کی رات بھی گئی
چشم کشیدہ! دیکھ ادھر، میں کہ بہت جوان تھا
مجھ کو فراق کھا گیا، مجھ کو شراب پی گئی
عشق! بلائے جاں تِری اتنی عنایتیں ہوئیں
دل تو چراغ ہو گیا، آنکھ کی روشنی گئی
میری خطائے خام کو جرم بنا دیا گیا
مجھ کو نہ کیا کہا گیا، میری نہ اک سُنی گئی
عیشِ نشاطِ غم کہاں، خواہشِ جامِ جم کہاں
ناف پیالہ کیا ہوا؟ لذتِ مے کشی گئی
آخرِ کار مر گئی وہ مِری آخری اُمید
آئی تھی موت، موت بھی جانے کہاں چلی گئی
شمعِ سخن سے مثلِ لَو حضرتِ جون بھی گئے
یعنی کہ بزم بُجھ گئی، یعنی کہ شاعری گئی
فرتاش سید
No comments:
Post a Comment