Tuesday, 1 March 2022

زہر لگتى ہے تمناؤں کى جھرمٹ مجھ کو

 زہر لگتى ہے تمناؤں کى جُھرمٹ مجھ کو

پاس رکھنا بھى تو لازم ہے يہ حُرمت مجھ کو

میں فقط ایک ہى تصوير سے کرتا ہوں کلام

بس يہى ايک ہى ہے جس سے محبت مجھ کو

يہ جو دِکھنے میں بہت خوش ہے، اداکارى ہے

کرنى آتى ہى نہیں ايسى وضاحت مجھ کو

چاہے اَلماس کا نقصان ہى کيوں سر نہ لگے

روک ليتى ہے فريبى سے نصيحت مجھ کو

مجھ پہ الزام نہ لگ جائے بھٹک جانے کا

جيسے اس راہ پہ لے جاتى ہے حسرت مجھ کو

گفتگو کُھل کے میں کرنے سے بہت ڈرتا ہوں

لگ نہ جائے کہيں پھر سے کوئى تہمت مجھ کو

رات کو دير تک آنکھوں سے خفا نيند ہو تو

تھپکیاں دے کے سُلاتى ہے محبت مجھ کو

ڈر جو لگتا ہے تو سايے سے لپٹ جاتا ہوں

بارى سے جھانکتى ہے پھر کوئى وحشت مجھ کو

ميرى فطرت میں ہے صابر کہ میں آزاد لکھوں

مار ڈالے نہ کسى دن ميرى فطرت مجھ کو


صابر فرحان بلتستانی

No comments:

Post a Comment