سجا کے جسم پہ پوشاک نارسائی کی
تمہارے ہجر کی تقریبِ رونمائی کی
مجھے تو کھا گیا عفریت عشق کا لیکن
جہاں بھی بس چلا، لوگوں کی راہنمائی کی
شفائے کاملہ کی آس گھٹتی جاتی ہے
بڑھائی جاتی ہے مقدار جب دوائی کی
تمہاری شکل بھی یوسف سے کم نہیں، اک دن
کھلے گی تم پہ حقیقت تمہارے بھائی کی
وہ دیوتا تو نہیں تھا، مگر محبت میں
تمام عمر مِرے زعم پر خدائی کی
میں چیخ چیخ کے کہتی ہوں قید رہنے دو
نکالتا ہے وہ صورت اگر رہائی کی
کشید کرتے تھے لذت گناہگاری سے
قسم اٹھاتے ہوئے لوگ پارسائی کی
تمہیں جہاں پہ بچھڑنا ہو تم بچھڑ جانا
تمہارے پاس سہولت ہے بے وفائی کی
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment