خوشبو کی خانقاہ میں ہے میرا دشت سبز
اک خواب کی پناہ میں ہے میرا دشت سبز
کس لمس کی طلب میں ہمکتا ہے روز و شب
کس خواہش گناہ میں ہے میرا دشت سبز
ہر صبح آفریں کی تمنا میں ہے مدام
ہر شام کی نگاہ میں ہے میرا دشت سبز
گو خاک کر چکی ہے مجھے تیری آرزو
پھر بھی ترے نباہ میں ہے میرا دشت سبز
اے دیدۂ نہال کی خوش دیدہ موج تر
مدت سے تیری راہ میں ہے میرا دشت سبز
وہ رنج آرزو مِرا صدیوں کو ہے محیط
جس لمحۂ تباہ میں ہے میرا دشت سبز
دھڑکا لگا ہوا ہے شب و روز اب مجھے
کچھ دن سے چشم شاہ میں ہے میرا دشت سبز
سانسوں سے روندتا ہوں تمنا کے ریگزار
جب سے مِری سپاہ میں ہے میرا دشت سبز
جنید آزر
No comments:
Post a Comment