میں اپنی ماں کے قدموں سے لپٹ کے رو رہا تھا
میں جیسے یار! جنت میں سمٹ کے رو رہا تھا
مجھے ڈر تھا کہ میرے بعد گھر کا کیا بنے گا
میں پہلی بار سچائی پہ ڈٹ کے رو رہا تھا
وہ ہر باری پہ میری کال پھر سے کاٹتا تھا
میں بھی اس بار اس کی کال کٹ کے رو رہا تھا
مجھے وہ سانپ اس درجہ پیارے تھے تبھی تو
میں اپنی آستینوں کو الٹ کے رو رہا تھا
وہ کیسے لوگ ہیں جو عشق کر کے جی رہے ہیں
میں تو بس عشق کی باتوں کو رٹ کے رو رہا تھا
میں نے اک خواب میں دیکھا کہ کعبہ سامنے ہے
میں پھر اس خواب سے واپس پلٹ کے رو رہا تھا
تُو نے سنجیدگی کا درس اتنا دے دیا تھا
تِرا آکف تِری نظروں سے ہٹ کے رو رہا تھا
آکف صدیقی
No comments:
Post a Comment