دیا بجھانے میں یہ روشنی بھی لگ گئی ہے
ہمارے زخم کو عادت ہوا کی لگ گئی ہے
کسے بتائیں کے ہم بے سبب اداس ہوئے
کسے بتائیں کہ اب اس کی لت بھی لگ گئی ہے
جو بولتے ہوئے تھکتا نہیں وہ شخص تھا میں
تمہارے بعد تو جیسے کے چپ سی لگ گئی ہے
دعائیں تک نہیں لگتیں ہم ایسوں کو کونین
ہمیں یہ بددعا ناجانے کس کی لگ گئی ہے
کونین حیدر
No comments:
Post a Comment