بیٹھے ہیں عید کو سب یار بغل میں لے کر
بیٹھیں ہم کیا دلِ بیمار بغل میں لے کر
کشتۂ ناز فقط اس پہ ہیں نازاں جی میں
کہ نکلتا ہے وہ تلوار بغل میں لے کر
روئے ہم اس کی تمنائے ہم گوشی میں
دل مایوس کو ناچار بغل میں لے کر
بد گمانی سے ہمیں بیٹھتے اٹھتے ہے یہ سوچ
بیٹھے ہوں گے اسے اغیار بغل میں لے کر
مئے الفت کی ترنگ آئی تو آیا دوڑا
شیشۂ مے کو وہ میخوار بغل میں لے کر
کو بہ کو خانہ نشینی کا ہو اس کی چرچا
بیٹھے جو تجھ سا طرحدار بغل میں لے کر
شب تنہائی میں سو رہتے ہیں مشتاق تِرے
بہ تصور تجھے ہر بار بغل میں لے کر
سن کے ہم محو چمن اس کو غضنفر آئے
دل پر داغ سے گلزار بغل میں لے کر
غضنفر علی
No comments:
Post a Comment