میں کہہ رہا ہوں مِرے دوستا! نہیں ہونا
کہ حد سے زیادہ کبھی پارسا نہیں ہونا
وہ مجھ سے بول رہی ہے کہ عشق ہو تجھ کو
میں اس کو بول رہا ہوں؛ کہ جا نہیں ہونا
بغیر فکر جُدا ہو لے اور یہ لکھ لے
تِرے بغیر مجھے مسئلہ نہیں ہونا
انا تو ہے ہی مگر عاجزی بھی ہے مجھ میں
تُو جانتا ہے کہ میں نے خدا نہیں ہونا
میں خود بھی یار پریشاں ہوں وہ دُکھی لڑکی
لِپٹ کے کہتی ہے؛ تجھ سے جُدا نہیں ہونا
یہ رُوح قید ہے کب سے، حِصارِ جاں ٹُوٹے
یہ ٹُوٹے بھی تو کوئی فائدہ نہیں ہونا
اُداس رہنے کی عادت بنا اے شہزادی
تِرے نصیب میں لگتا ہے شاہ نہیں ہونا
میں جانتا تھا کہ ہم جس طرح سے بچھڑے ہیں
مجھے پتہ تھا کبھی رابطہ نہیں ہونا
مجھے وہ غم سے نکالے گی، اُس کو عِلم نہیں
میں ایسا پیڑ ہوں جس نے ہرّا نہیں ہونا
مبین دھاریجو
No comments:
Post a Comment