دیر ہو جائے گی پھر کس کو سُنائی دو گے
دشت خُود بول اُٹھے گا تو دُہائی دو گے
اب تو اس پردۂ افلاک سے باہر آ جاؤ
ہم بھی ہو جائیں گے مُنکر تو دکھائی دو گے
اب اسیرانِ قفس جیسے قفس میں بھی نہیں
اب کہاں ہو گی رہائی، جو رہائی دو گے
شمعیں روشن ہیں تو کیا عالم بے چہرگی میں
تم کوئی بھی ہو مگر کس کو سُجھائی دو گے
ہم تو اِظہار کے قائل تھے ہمیشہ کی طرح
کب توقع تھی کہ نالے کو رسائی دو گے
کیا خبر تھی مِری محنت کے صلے میں تم بھی
میرے ہاتھوں میں یہ کشکولِ گدائی دو گے
ہم تو اس وصلِ مُکرر پہ بھی خوش تھے شہزاد
جب یہ معلوم تھا اک اور جُدائی دو گے
شہزاد قمر
No comments:
Post a Comment