امیرِ شہر ہے اور اہتمامِ در بدری
یہ شام کرتے ہیں ہم بھی بنامِ در بدری
ہمارے پاؤں میں زنجیرِ جبرِ اہلِ سِتم
ہمارے سر پہ مُسلط نظامِ در بدری
مکِین باندھ کے بیٹھے ہوئے ہیں رختِ سفر
انہیں مِلا ہے کہِیں سے پیامِ در بدری
یہ کس کے سوگ میں ہے سوگوار رُوحِ زمن
یہ کس پہ شام میں اُتری ہے شامِ در بدری
غُبارِ غُربت و وحشت ہمارے چہروں پر
ہمارے شانوں پہ بارِ خیامِ در بدری
سلامِ آخری تم کو ہمارا اہلِ قیام
کہ آن پہنچا ہے وقت و مقامِ در بدری
وہی جلے ہوئے خیمے، وہی خموش چراغ
ہمیں ہے شامِ غریباں، یہ شامِ در بدری
پسِ فصیل، لُٹے قافلے کی دستک کو
نوید ہو کہ ہُوا اختتامِ در بدری
غلام محی الدین
No comments:
Post a Comment