ہمارے خون دل سے تر جو اس کی آستیں ہوتی
کہانی عشق کی کتنی حسیں اور دلنشیں ہوتی
تمنّا تھی نِگہ تیری محبت آفریں ہوتی
تصوّر دل میں جب ہوتا نگاہِ واپسیں ہوتی
حیات و موت کی یکجا جہاں پر کشمش ہوتی
مِری وارفتگئ شوق کی منزل وہیں ہوتی
یہ حُسن و عشق کی دُنیا سراپا درد بن جاتی
اگر دل میں تپش کے ساتھ آہِ آتشیں ہوتی
سکوں ناآشنا ہو کر یہ جینے کی ہوس کب تک
مجھے تو ایسے جینے کی تمنّا ہی نہیں ہوتی
یہ مانا ہم گنہگاروں کی بخشش ہو نہیں سکتی
نہ ہم ہوتے تو یا رب! تیری جنت بھی نہیں ہوتی
کسی کی ناز فرمائی مگر مقصود تھی، ورنہ
طلسمِ آسماں ہوتا، نہ یہ رُوئے زمیں ہوتی
نہیں کچھ منحصر رفعت جمالِ طُورِ سِینا پر
جہاں جلوہ نظر آتا، وہیں میری جبیں ہوتی
رفعت القاسمی
No comments:
Post a Comment