Saturday, 23 December 2023

رفعت کیوں روتے ہو پیارے کچھ تو اپنا حال سناؤ

 رفعت کیوں روتے ہو پیارے!، کچھ تو اپنا حال سناؤ

کس سے دل کو لگا بیٹھے ہو، ہم کو بھی تو کچھ بتلاؤ

کون ہے جس کی یاد میں اکثر کھوئے کھوئے سے رہتے ہو

عشق بھلا کب راز رہا ہے، مان بھی جاؤ، اب نہ چُھپاؤ

یارو! ہم غمگین بہت ہیں،۔ ہم کو تنہا ہی رہنے دو

آج اکیلے ہی پی لیں گے، مے کی صُراحی دیتے جاؤ

یا تو تم ناراض ہو ہم سے، یا پھر کوئی بات ہوئی ہے

ایسی تو اُمید نہیں تھی،۔ وعدہ کر لو پھر بھی نہ آؤ

برسوں پر تو آئے ہو تم، بُھولی بِسری باتیں کر لیں

آخر ایسی جلدی کیا ہے، ٹھہرو! رات گُزار کے جاؤ

اپنی ذات کے اندر رہ کر کیا پاؤ گے، کیا کھوو گے

اپنی ذات سے باہر آؤ،۔ قلب و نظر کے دِیپ جلاؤ

رفعت جی! عاشق بنتے ہو، کیسے عہد اور کیسے پیمان؟

حُسن کی گھاتیں تم کیا جانو، تم تو دھوکا کھاتے جاؤ


رفعت القاسمی

No comments:

Post a Comment