Monday, 25 December 2023

گھر ہی گھر کے دیے بجھاتا ہے

 گھر ہی گھر کے دِیے بُجھاتا ہے

یہ تعصّب فقط رُلاتا ہے

آئینہ اپنا ہی دُشمن بن کر

چہرہ سچ کا مجھے دِکھاتا ہے

کوئی تو بات اس میں ہے ایسی

جو میری رُوح میں سماتا ہے

گھر کی تقسیم کا سوال ہے پھر

رُت کا عنوان یہ بتاتا ہے

بند کمروں میں پِھرتے رہتے ہیں

شور باہر کا یوں ڈراتا ہے

فون پر پُوچھ لی ہے خیریت

رشتہ داروں سے اتنا ناتا ہے

سیما ہم خواب کس طرح دیکھیں

غم جو تعبیر کا ستاتا ہے


سیما عابدی

No comments:

Post a Comment