رہروانِ آرزو
سحر ہوئی تو کسے خبر تھی
کہ چاند نکلا تھا جب فلک پر تو کیا سمے تھا
سیاہ راتوں میں جانے کتنے ستارے چُپکے سے جھلملا کر
فصیلِ شب میں نقب لگا کر
وفورِ تیرہ شبی کے ہاتھوں ہی جل بُجھے تھے
خلا کے پہلو میں ایسے کتنے شہاب ٹُوٹے، ستارے ڈُوبے
کسے خبر ہے
کسے خبر ہے کہ رات جُگنو چمک رہے تھے
چراغ بامِ ہُنر پہ ہر سو دمک رہے تھے
مگر یہ منظر کسی کی نظروں سے کیا گُزرتے
خروش کرتی وہ بادِ صرصر
ہر اک دِیے کے لیے پیامِ اجل بنی تھی
بس ایک لمحے کی روشنی تھی
وہی خُوشی تھی
حباب صُورت نصیب اُبھرے جو کہکشاں پر
زمانہ ٹُکڑوں میں بٹ گیا تھا
وجود خود میں سمٹ گیا تھا
حصارِ ظُلمت میں گرد ہوتے عمیق جذبوں کو کس نے دیکھا
ہے کوئی شاہد، گواہ کوئی
کسے بتائیں سراب لمحوں کے رتجگوں میں
جو خواب تعبیر ہو نہ پائے
کہاں گئے وہ
مہیب راتوں میں دورِ عُجلت کا اژدہا تھا
جو خواب و خواہش نِگل گیا تھا
اُمید و امکاں کو ڈس رہا تھا
کہ زہرِ غفلت بھرا ہوا تھا رگوں میں اس کی
یہ کون سمجھے، یہ کون جانے
ریاضتوں کی، مراقبوں کی
طویل راتیں گُزار کر بھی
جب آنکھ کھولی تو دن نہیں تھا
سلمان ثروت
No comments:
Post a Comment