عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل اگر غافل ہے پر جاگتی ہیں انگلیاں
نعت لکھتی ہوں تو میری کانپتی ہیں انگلیاں
جس سے بڑھ جائے گا رتبہ دونوں عالم میں میرا
اس گدائی کا سلیقہ مانگتی ہیں انگلیاں
گُنبدِ خضرا کا سایہ اور تراوت اوڑھ کر
ساتھ میرے شب گئے تک جاگتی ہیں انگلیاں
جالیاں روضے کی چُھو کر کیا سے کیا یہ ہو گئیں
کیا خبر اب راز کیا کیا جانتی ہیں انگلیاں
یہ تو رہتی ہیں سدا محوِ ثناء، محوِ درود
کون کہتا ہے کہاں کب بولتی ہیں انگلیاں
وجد کا عالم ہے اور ذکرِ نبیؐ کی دُھوم ہے
جُھومتی ہیں جُھوم کر اور ڈولتی ہیں انگلیاں
آپؐ کی چوکھٹ کو چُھونے کی للک ہے کس قدر
میرے ہاتھوں سے نکل کر بھاگتی ہیں انگلیاں
میں کہاں رہتی ہوں خُود میں جب کروں ذکر رسولؐ
مجھ کو دو پاٹوں میں اکثر بانٹتی ہیں انگلیاں
آج بھی اُٹھتی ہیں دیتی ہیں گواہی آپﷺ کی
آپﷺ ہیں ختمِ رُسلﷺ یہ بولتی ہیں انگلیاں
اب کے ہو بخشش میری صدقے نبیؐ کے اے خدا
رات کے پچھلے پہر یہ مانگتی ہیں انگلیاں
اس مہرباں رب کا ہم سے شکر ہو کیسے ادا
نعمتیں جس کی کِھلا کر پالتی ہیں انگلیاں
بس کہ ہو حاصل کسی کُوچے میں انؐ کے نقشِ پا
اے نظر! خاکِ مدینہ چھانتی ہیں انگلیاں
نکہت فاروق نظر
No comments:
Post a Comment