دل کو جلا رہی ہے کھڑکی میرے قفس کی
صبر آزما رہی ہے کھڑکی میرے قفس کی
نغمے سُنا رہی ہے بُوندوں کی پائلوں کے
بے خُود بنا رہی ہے کھڑکی میرے قفس کی
وِیران جو پڑی ہیں گلیاں میرے شہر کی
مجھ کو دِکھا رہی ہے کھڑکی میرے قفس کی
پُھوٹی ہوئی وبائیں،۔ آفات اِبتلائیں
سب کچھ بُھلا رہی ہے کھڑکی میرے قفس کی
اے سعید! اُمیدِ زیست کے نغمے سُنا سُنا کر
ڈھارس بندھا رہی ہے کھڑکی میرے قفس کی
سعید عباس
No comments:
Post a Comment