تجھ سے اس راہ میں اب بات نہیں ہو سکتی
تُو بھی چاہے تو ملاقات نہیں ہو سکتی
دن تو دن راتیں گُزرتی تھیں تِرے ساتھ کبھی
اب تِرے ساتھ کوئی رات نہیں ہو سکتی
اے ستمگر! کیوں ستم مجھ پہ روا رکھتا ہے
روز مِلتے ہیں، مگر بات نہیں ہو سکتی
پیار سے وہ بھی تو اک بار پُکارے مجھ کو
ایسی کیا صُورتِ حالات نہیں ہو سکتی؟
بس دُعاؤں میں مجھے یاد رکھیں اہلِ ادب
اس سے بڑھ کر تو کوئی بات نہیں ہو سکتی
ہم نے سِیکھا یہ پیادے سے تمہارے شائق
جیت ہو یا نا ہو، پر مات نہیں ہو سکتی
سید شائق شہاب
No comments:
Post a Comment