ملنے لگے ہیں اب تو یہ ملنا نہ چھوڑیۓ
ہم دل کے صاف ہیں ہمیں تنہا نہ چھوڑیۓ
ہم کو اکیلا کر کے تماشا نہ کیجیۓ
قابل نہیں جو آپ کے رُسوا نہ چھوڑیۓ
اِک دل کی آس کا ہے یہ ناتا نہ توڑیۓ
آنکھوں کو میری یوں ہی تو بھیگا نہ چھوڑیۓ
احساس کی ہے شمع ایک جلنے دیجیۓ
جو جل رہی ہے خود بخود شمع نہ چھوڑیۓ
دُنیا کے احتجاج کی پرواہ نہ کیجیۓ
ہم کو غریب جان کے سودا نہ چھوڑیۓ
رہیے گا سنبھل کر کہیں مسلے نہ جایۓ
ہے آپ کی امان یہ کانٹا نہ چھوڑیۓ
لوگوں کی بات سُن کے بد گُماں نہ ہویۓ
خود پرکھنے کا بات کو جادہ نہ چھوڑیۓ
جو کر چُکے ہیں سین سے پیماں نبھایۓ
اب عمر بھر کے ساتھ کا وعدہ نہ چھوڑیۓ
سعد سین
No comments:
Post a Comment