بے مہر مقدر کا ستارہ نہیں ہوتا
ہر بار محبت میں خسارہ نہیں ہوتا
پیارا تو ہمیں ہوتا ہے ہر دوست ہمارا
ہر دوست مگر جان سے پیارا نہیں ہوتا
کھو جاتے ہیں اشکوں کی روانی میں یوں منظر
دیدوں سے پلک تک بھی نظارہ نہیں ہوتا
پلکوں پہ سجا رکھنا غمِ یار کے موتی
وِیران سمندر کا کنارہ نہیں ہوتا
اے حُسن! تغافل سے بھی کچھ کام لیا کر
اب مہر و مروّت سے گُزارہ نہیں ہوتا
لگ جاتی نظر تجھ کو زمانے کی اے سدرہ
صدقہ تیری ماں نے جو اُتارا نہیں ہوتا
سدرہ ایاز
No comments:
Post a Comment