Sunday, 24 December 2023

کیا حسن کا معیار ہیں سرکار دو عالم

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت نعتیہ مثنوی 


کیا حسن کا معیار ہیں سرکارِ دو عالمﷺ

اللہ کا شہکار ہیں سرکارِ دو عالمﷺ

زُلفوں کی ادا رات کو شرمائے ہوئے تھی

چہرے کی چمک چاند کو اُجلائے ہوئے تھی

کِھلتے تھے سبھی پُھول خد و خالِ نبیؐ سے

سب رنگ تھے مقبول خد و خالِ نبیؐ سے

ہونٹوں کا تبسم تھا کہ تابانئ فردوس

ہے اُن کے تغزل سے غزل خوانئ فردوس

عینین کے سُرمے نے بھرم رات کا رکھا

آنکھوں نے عجب حسن حجابات کا رکھا

سرنامۂ انوار، جبینِ شہِ ابرارﷺ

وہ نور کا مینار جبینِ شہِ ابرارﷺ

دستار تھی دستارِ سُلیمانئ عالم

ایسے تو نہیں کہتے ہیں لاثانئ عالم

ریشم سے کہیں نرم کفِ دستِ نبیؐ تھے

اس بات کے راوی مِرے آقاؐ کے ولی تھے

انگشت نے دو لخت قمر کر کے دکھایا

دیوارِ محالات میں در کر کے دکھایا

پلکوں کے اشارے سے بندھے رہتے نظارے

پاپوش کی مٹی سے چمک اٹھتے ستارے

سرکارؐ کی آنکھوں میں حیا رکھی گئی تھی

اور آپؐ کے ہاتھوں میں شفا رکھی گئی تھی

اور آپؐ کی آواز تھی رس گھولنے والی

اور آپؐ کی گُفتار گِرہ کھولنے والی

اور آپؐ کی مٹی سے بنائی گئی جنت

اور آپؐ کے قدموں میں بچھائی گئی جنت

کیا جسم تھا جو کارگہِ کُن سے بنا تھا

کیا حُسن تھا جو پورے توازن سے بنا تھا

تاجوں کی چمک آپؐ کے نعلین پہ واروں

دنیا کے ولی آپؐ کے حسنینؑ پہ واروں

نعلین کے تسموں سے بندھی رہتی تھی دنیا

محبوب کے قدموں میں پڑی رہتی تھی دنیا

میں کیا ہوں، حضورؐ آپ کا حسان ثنا خواں

میں کیا ہوں، حضورؐ آپ کا قرآن ثنا خواں

دارین بھی نذرانہ کروں، کم ہے نبیؐ جی

بس آپؐ کی چوکھٹ پہ جبیں خَم ہے نبیؐ جی

میں تشنہ بہ لب، تھل کا تھلوچی مِرے آقاؐ

میں شاعرِ کم ذات بلوچی مِرے آقاؐ

کیا عرض کروں؟ شرم بہت آتی ہے سائیں

تنہائی کا وہ حال ہے جاں جاتی ہے سائیں

بس آپؐ کے صدقے سے جیے جاتا ہوں مالک

بس آپؐ کا مشروب پیے جاتا ہوں مالک

بس آپؐ کی خیرات سلامت رہے مولا

یہ نعت کی سوغات سلامت رہے مولا


نادر صدیقی

No comments:

Post a Comment