روشنی سے بھلا جگنو یہ نکلتا کیوں ہے
عکس اس کا میری آنکھوں میں بکھرتا کیوں ہے
گُفتگو میں جو ذرا ذِکر کبھی آ جائے
درد طوفاں کی طرح دل میں مچلتا کیوں ہے
رات بھر چاند نے چُومی ہے تیری پیشانی
اُس کو افسوس ہے سُورج یہ نکلتا کیوں ہے
کس لیے پھیلا ہُوا ہے حسرت کا دُھواں چاروں طرف
دل سے اک آہ کا شعلہ یہ نِکلتا کیوں ہے
سوچتی رہتی ہوں فُرصت میں یہی میں سیما
کام جو ہونا ہے آخر وہی ٹلتا کیوں ہے
سیما گپتا
No comments:
Post a Comment