تِرا لہجہ وہی تلوار جیسا تھا
مِری گردن میں خم ہر بار جیسا تھا
اُتر جاتا تو رُسوائی بہت ہوتی
کہ سر کا بوجھ بھی دستار جیسا تھا
تراشی ہیں غمِ دوراں نے تقدیریں
یہ خنجر بھی کسی اوزار جیسا تھا
ہنسی بھی اشتہاروں سی چمکتی تھی
وہ چہرہ تو کسی اخبار جیسا تھا
بہت رشتے تھے سب کی قیمتیں طے تھی
ہمارے گھر میں کچھ بازار جیسا تھا
بکل دیو
No comments:
Post a Comment