یہ کیسا ستم گر اِشارا ہُوا ہے
بہاروں میں گُل سے کِنارا ہوا ہے
اے جانِ جہاں خوف کا ہے یہ عالم
تِرے بِن بھی رہنا گوارا ہوا ہے
کہ ہے آسماں، دھرتی سب کے برابر
سمجھ لو اِشارہ دوبارا ہوا ہے
یہ ہر سُو خموشی یہ تنہائی، وحشت
سفر، بے بسی کا ستارا ہوا ہے
کہ نوچا ہے فطرت کو انساں نے بے حد
اسی واسطے تو خسارا ہوا ہے
نئی سوچ ہو گی، نیا دور ہو گا
یہ اُمید اپنا سہارا ہوا ہے
وہ آتا ہی ہو گا ذرا دیر میں بس
کہ میں نے خُدا کو پُکارا ہوا ہے
اگر عاصمی بچ گئے اس وبا سے
نیا اک جہاں پھر ہمارا ہوا ہے
شفقت عاصمی
شفقت علی کمبوہ
وائرس پھر سر اٹھا رہا ہے اس پہ یہ غزل ذہن میں آئی سوچا آپ سے بانٹتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment