زعفرانی غزل
بستر پہ بغل میں مِرے تکیہ نہیں ہوتا
بیگم سے اگر میں کبھی رُوٹھا نہیں ہوتا
اب گھرکی یہ حالت ہے بتاؤں تجھے میں کیا
"گر دیگچہ ہوتا ہے تو چمچہ نہیں ہوتا”
بیگم سے پِٹا کرتے سبھی روز یقیناً
دُنیا میں اگر کوئی بھی جُھوٹا نہیں ہوتا
لٹُو سا بنا گُھومتا ہوں تیری گلی میں
اے کاش تِرا گھر کبھی دیکھا نہیں ہوتا
افسر جو بنا ہوتا تو ٹکلا بھی چمکتا
دن بھر یوں مِرا دیکھو تماشہ نہیں ہوتا
دیدار کبھی کرنے وہاں میں چلا جاتا
گھر اس کے اگر پالتو کُتا نہیں ہوتا
مُرغی یہ جو اِتراتی ہے مُرغے کے ہی بل پر
بیوہ ہی سدا رہتی جو مُرغا نہیں ہوتا
حیران کیے رکھتا ہے یہ عشق ہمیں تو
مجنوں تو یہاں ہوتی ہے لیلیٰ نہیں ہوتا
کرم حسين بزدار
No comments:
Post a Comment