کھل کہ ہنسنے پہ وہ سوچیں کہ ٹیکس لگایا جائے
ممکن ہے اب اشکباری پہ بھی ٹیکس لگایا جائے
سردیوں میں دُھوپ سیکنا بھی جُرم ہی تصوّر ہو
مُمکن ہے گرمیوں میں چھاؤں پہ ٹیکس لگایا جائے
سامان زیست تو پہلے ہی میسّر نہیں مالیے کے بغیر
اب مجلسِ شاہی چاہے کہ مرنے پہ ٹیکس لگایا جائے
پیدل چلنے والوں کے رستے کی کڑی نگرانی کی جائے
پھر یک لخت ہی قدم قدم گِن کہ ٹیکس لگایا جائے
حُسن پہ اُٹھتی ہوئی عِشقیہ نظروں کو بھی تاڑا جائے
عین مُمکن ہے اب تیرِ چشم پہ بھی ٹیکس لگایا جائے
وہ فکر و عمل جن سے عامیوں کو کوئی فائدہ پہنچے
ایسے افکارِ بغاوت کو غدّار ٹھہرا کر ٹیکس لگایا جائے
کب ظُلم و جبر غلامی و بیروزگاری کے عذاب ٹلیں گے
کیوں نا اک مُٹھی ہو کہ ان سب پہ ٹیکس لگایا جائے
امتیاز فہیم
No comments:
Post a Comment