Tuesday, 26 December 2023

شاگرد فعل حال سے آگے نہیں گئے

 زعفرانی غزل


شاگرد فعل حال سے آگے نہیں گئے

ڈُو، ڈز کی بول چال سے آگے نہیں گئے

وہ ساڑھی، جیولری کے تحائف پہ تھی بضد

ہم سو روپے کی شال سے آگے نہیں گئے

بیمار ایسے میرے محلے میں ہیں کئی

جو نرس و ہسپتال سے آگے نہیں گئے

کُودے ہیں اس کے صحن میں دو چار شیر دل

ہم فیس بک کی وال سے آگے نہیں گئے

نقّاد ایسے شہر میں پھرتے ہیں جا بجا

جو رینچ، ریگمال سے آگے نہیں گئے

فرہاد جب بھی عشق کے پٹوار میں گُھسے

شیریں کے انتقال سے آگے نہیں گئے

دیودار کے وہ ہم کو بتانے لگے خواص

جو کِیکروں کی چھال سے آگے نہیں گئے

غیروں نے اُس سے فون پہ گھنٹوں لگائی گپ

ہم ایک مِسڈ کال سے آگے نہیں گئے

مُرغے کی رٹ لگائے رکھی ہم نے بھی عزیز

اور میزبان دال سے آگے نہیں گئے


عزیز فیصل

No comments:

Post a Comment