بجا کہ آپ کی گِنتی وفا شعار میں ہے
یہ دل کہ آج بھی جو شُغلِ انتظار میں ہے
توقعات کے پرزے اُڑا دئیے میں نے
رگِ اُمید بھی دامن کے تار تار میں ہے
ہُوا جو فیضِ خُدا، روشنی میں بدلے گی
جو تیرگئ گُنہ، فردِ جُرم کار میں ہے
نہ جانے کب یہ پرندہ اُڑان بھرنے لگا
ابھی تو قید میرے جسم کے حِصار میں ہے
سروں سے تاجِ حکومت اُتر چُکا، لیکن
ہماری قوم مگر آج بھی خُمار میں ہے
گِرائے اشک اگر وہ تو آگ لگ جائے
عجب بلا کی تپش چشمِ آبشار میں ہے
شعیب رضا فاطمی
No comments:
Post a Comment