Sunday, 24 December 2023

میں عم زاد نبی شیر خدا کا مرثیہ لکھوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


میں عم زادِ نبیؐ، شیرِ خدا کا مرثیہ لکھوں

اگر رونے سے فرصت ہو تو یہ سوچوں کہ کیا لکھوں

علیؑ، وہ بُو تُرابؑ و حیدرِؑ کرار کی باتیں

ابوالحسنینؑ، دامادِ نبیﷺ، سردار کی باتیں

وہی جس کو ملی دنیا میں جنت کی بشارت بھی

نبیؐ کی جانشینی یعنی پھر چوتھی خلافت بھی

وہی جس نے بہت کم عمری سے حق بات پھیلائی

وہی جس نے ہر اک گُتھی بس اک چُٹکی میں سُلجھائی

وہی جرّار جس نے لمحوں میں مرحب کا سر کاٹا

وہ با ہمت کہ جس نے پنجے سے خیبر کا در توڑا

بس اس کی شان لکھتے زندگی کی شام ہو جائے

مگر ممکن نہیں اس کام کا اتمام ہو جائے

سُناتا ہوں تمہیں اک قصۂ دل سوز، دل تھامو

کہ بڑھ جاتا ہے جس سے غم مِرا ہر روز، دل تھامو

یہ رمضاں، پنج شنبہ دن تھا اور انیسواں روزہ

نہایا درد میں سارا جہاں اور خاص کر کوفہ

یہ سن چالیس ہجری کا رہا افسوس شر انگیز

کہ اُمت کے لیے ثابت ہوا گویا یہ اک چنگیز

خوارج نے کیا تھا طے علیؑ کو قتل کر دیں گے

شہادت سے ہم ان کی سانس کا پیمانہ بھر دیں گے

اسی مذموم ارادے سے چلا تھا ابنِ ملجم آج

خدا کا، دین کا، پیارے علیؑ کا ایک مُجرم آج

کِیا قطّام نامی ایک عورت نے اسے مائل

خبیثہ نے کیا اس کے ارادے کو بہت کامل

کہا اس نے؛ اگر شیرِ خدا کو قتل کر آؤ

تو پھر بدلے میں مجھ کو اپنی زوجیّت میں لے جاؤ

جنابِ مرتضیٰؑ کا خون ہے بس حق مہر میرا

اگر یہ تیرے ہاتھوں پر ہُوا تو تیرا گھر میرا

اسی نیّت سے یہ ملعون پھر مسجد میں جا سویا

جنابِ مرتضیٰؑ جب فجر میں آئے تو یہ جاگا

علیؑ کا سر تھا سجدے میں، نمازِ فجر جاری تھی

خدا کے سامنے میں شیرِ خداؑ کی انکساری تھی

تبھی وہ ابنِ ملجم حملہ آور ہو گیا کم بخت

علیؑ کے زخمی زخمی کر گیا ظالم، بڑا کم بخت

ہوئی حالت بہت نازک، بجھی تھی زہر میں تلوار

کِیا تھا سر مبارک پر عدُو نے ایک گہرا وار

کِیا رمضان کی اکیسویں شب آپ نے پردہ

کہا سب نے کہ ہائے کیسے ڈھونڈیں گے اب ان جیسا

گھروں، گلیوں میں اور بازار میں سِسکی تھی، آہیں تھیں

غم و اندوہ سے کُوفہ کی بس بوجھل فضائیں تھیں

وہ علم و آگہی، عقل و خِرد کا ایک مینارہ

رسولِ محتشمؐ کے ہاتھ سے سنورا وہ شہپارہ

وہ زہرہؑ پاک کا شوہر، بہت نایاب اک گوہر

بہت مشہور ہے جس کی شجاعت، عِلم کے جوہر

ہمیں اس کی کمی مصعب ابھی تک کاٹ کھاتی ہے

ہمیں پہروں ستاتی ہے، ہمیں پہروں رُلاتی ہے


مصعب شاہین

No comments:

Post a Comment