زہر کے جام مجھے اس نے پِلائے، ہائے
پھر بھی کہتا ہوں کہیں رُوٹھ نہ جائے ہائے
مجھ کو بدنام محبت کی کہانی نے کِیا
مجھ پہ حالات نے وہ ظُلم ہیں ڈھائے ہائے
اس کی ہر ایک ادا لُوٹ لیا کرتی ہے
اس نے غم اتنے مجھے دے دئیے ہائے ہائے
جب لگی چوٹ مِرے دل پہ تو ساون آیا
ابر برسا تو بہت جام لنڈھائے ہائے
صبر، احساس، جنوں اور فراقِ جاناں
میں نے جذبوں کی تجارت میں کمائے ہائے
میری بینائی چھنی جا چکی کب کی یارو
آنکھ کے سامنے دُھندلے سے ہیں سائے ہائے
اس نے چاہت سے بنا کر مجھے بھیجی اک کپ
میرے وجدان نے چکھی ہے وہ چائے، ہائے
ایک سِگریٹ نے کیا شانت ہمیں یوں جاناں
ہم نے سب غم بھی دُھویں میں ہی اُڑائے ہائے
مجھ کو احمد! کسی درویش نے بتلایا ہے
جب ملے زخم تو کرنا نہیں، ہائے، ہائے
احمد حجازی
No comments:
Post a Comment