Thursday, 21 December 2023

یہ کہاں تھی میری قسمت کہ وصال یار ہوتا

 یہ کہاں تھی میری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

میری طرح کاش انہیں بھی میرا انتظار ہوتا

یہ ہے میرے دل کی حسرت یہ ہے میرے دل کا ارماں

ذرا مجھ سے ہوتی الفت ذرا مجھ سے پیار ہوتا

اسی انتظار میں ہوں کسی دن وہ دن بھی ہوگا

تجھے آرزو یہ ہو گی کہ میں ہمکنار ہوتا

تیرا دل کہیں نہ لگتا تجھے چین کیونکر آتا

تو اداس اداس رہتا جو تو بے قرار ہوتا

تیری بات مان لیتا کبھی تجھ سے کچھ نہ کہتا

میرے بے قرار دل کو جو ذرا قرار ہوتا

یہی میری بے کلی پھر میری بے کلی نہ ہوتی

جو تو دل نواز ہوتا جو تو غمگسار ہوتا

کبھی اپنی آنکھ سے وہ میرا حال دیکھ لیتے

مجھے ہے یقین ان کا یہی حالِ زار ہوتا

کبھی ان سے جا لپٹتا کبھی ان کے پاؤں پڑتا

سر رہگزر پہ ان کی جو مِرا غبار ہوتا

تِری مہربانیوں سے مِرے کام بن رہے ہیں

جو تو مہرباں نہ ہوتا میں ذلیل و خوار ہوتا

یہ ہے آپ کی نوازش کہ ادھر ہے آپ کا رخ

نہ تھی مجھ میں‌ کوئی خوبی جو امیدوار ہوتا

تِری رحمتوں کی وسعت سرِ حشر دیکھتے ہی

یہ پکار اٹھا ہے زاہد میں‌ گناہ گار ہوتا

بخدا کس اوج پر پھر یہ ادا نماز ہوتی

تِرے پائے ناز پر جب سرِ خاکسار ہوتا

جو معین میرا ان سے کسی دن ملاپ ہوتا

کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا


سید غلام معین الدین مشتاق

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

غالب کی زمین میں کہی گئی غزل

No comments:

Post a Comment