بھول جاتے ہیں سبھی لوگ جو راحت مل جائے
جانے اس زندگی میں کب کوئی وحشت مل جائے
ہم وہیں کے ہوئے ہیں جس جگہ عزت مل جائے
ان ارادوں کو جہاں سے ذرا قوت مل جائے
بس تری سوچ ہی ہو سکتی ہے ممکن ہی نہیں
کہ کسی نوچے ہوئے جسم سے چاہت مل جائے
خوب ہوتی ہے تجارت ابھی نفرت کی یہاں
یہ خدا ہی کی عنایت ہے محبت مل جائے
لوگ اوروں کی ابھی ٹانگیں ہی تو کھینچتے ہیں
خیر سے ان کو اگر تھوڑی سے فُرصت مل جائے
ہم تو اس کے بھی سبھی حُکم بجا لاتے ہیں
جب کبھی ان سے کسی کی کوئی عادت مل جائے
تُو بھی اعجاز کسی دل کو دُکھانا نہ کبھی
کیا پتہ رب کی کہاں سے کوئی نعمت مل جائے
اعجاز کشمیری
No comments:
Post a Comment