شعلۂ عشق نے جلا ڈالا
کیا تھا میں، اور کیا بنا ڈالا
مجھ اس دلنشیں نے اپنا کر
دل سے ہر بُت مِرے گِرا ڈالا
مجھ ایسا شعور بخشا گیا
جس نے غم کا دِیا بُجھا ڈالا
ہوش مندی میرا نصیب ہوئی
بے خودی نے مجھے بُھلا ڈالا
مجھ پہ تہمت کی اہلِ دانش کو
خوابِ غفلت سے کیوں جگا ڈالا
اس کا ہر ہر نشاں کِیا ظاہر
میرا ہر ہر نشاں مِٹا ڈالا
ایک نغمہ تھا جو سرِ مقتل
بے خودی نے مجھے سُنا ڈالا
میں تو رویا نہ تھا کبھی گلزار
ہائے کس نے مجھے رُلا ڈالا
بابا گلزار صابری
فقیر محمد صابری چشتی
No comments:
Post a Comment