Wednesday 20 December 2023

یہ مسئلہ رہا ہے ذرا دل حضور کا

 یہ مسئلہ رہا ہے ذرا دل حضوُر کا

دِکھتا تھا صاف صاف جو منظر تھا دُور کا

عورت کو دیکھیۓ کبھی اندر کی آنکھ سے

پھر تذکرہ کریں گے پلٹ کر نہ حُور کا

جس کا ہے اختیار، سزا بھی اُسی کی ہو

اُلجھا ہوا سوال نہیں یاں قصور کا

سادہ دِلانِ شہر سے وعدہ نہ کر کوئی

تا عمر انتظار کریں گے ظہور کا

ہم مُبتدی ہیں عِلم میں فن میں زبان میں

اُٹھتا نہیں سوال کہیں بھی عبور کا

پیڑوں سے جانور سے زمیں سے یہ التفات

یہ ارتقاء نہیں ہے تو کیا ہے شعور کا

نام و نسب پہ اپنے جو نازاں ہیں آج آپ

اِبلیس مُرتکب تھا کہاں اس غرور کا


نمرہ شکیل

No comments:

Post a Comment