Thursday, 21 December 2023

مرا سوال دوسرا تھا تم نے کیا سمجھ لیا

 باوجود


مِرا سوال دوسرا تھا تم نے کیا سمجھ لیا

میں آرزو کے محل کی مسحُور اک پری سی تھی

جس کی چال میں لچک تھی جس کے ہونٹ پہ ہنسی

تم آرزو کے محل کی دیوار سے لگے ہوئے

کھڑے تھے میری زندگی کی ڈور سے جُڑے ہوئے

میں آنکھ بھر کے دیکھتی تمہیں

تو پوچھتی کہ تم نے ڈور کیوں ہے تھام لی

مگر نظر جو آئے تم تو آنکھ کب اُٹھی مِری

جھکی نظر سے میں نے یہ کہا کہ میں وجود ہوں

تمہاری زندگی کی اُلجھنوں کے باوجود ہوں

میں آرزو کے محل کی مسحور اک پری سی تھی

تمہارے لوہے کے محل کی زنگ سے بھری ہوئی

رنگ کا غلاف اوڑھے شان سے تنی ہوئی

گلی میں مجھ کو چھوڑ کر

وجود کی تلاش میں نکل نہ جاؤ تم کہیں


صادقہ نواب سحر

صادقہ آراء

No comments:

Post a Comment