آیت نہیں چھوڑی کوئی منتر نہیں چھوڑا
پر دُکھ کی ہواؤں نے مرا گھر نہیں چھوڑا
میں خُود ہی چلا آیا سرِ دشتِ محبت
یہ سانپ کسی نے میرے اُوپر نہیں چھوڑا
بیٹھا ہوں ہر اک شخص نکالے ہوئے دل سے
اس فون میں آج ایک بھی نمبر نہیں چھوڑا
کچھ اپنے سبب بھی میں ذرا رہ گیا پیچھے
کچھ تم نے بھی دُنیا کے برابر نہیں چھوڑا
مجھ کو ہی اُداسی نے نہیں خُشک کیا ہے
اس دُھوپ نے کوئی بھی سمندر نہیں چھوڑا
بچپن سے میرے ساتھ ہے سائے کی طرح مہر
قرضے نے میرا ہاتھ پکڑ کر نہیں چھوڑا
مہر فام
No comments:
Post a Comment