آنکھوں کی ضیا کھو کر ساتھ آئینہ لے کر
جستجو ہے سورج کی ہاتھ میں دیا لے کر
دیکھ لی مسیحائی نام ہی مسیحا ہے
جا رہے ہیں ہم بھی اب دردِ لا دوا لے کر
زندگی مسافت ہے ہم بھی سب مسافر ہیں
ہیں رواں دواں سب لوگ عزم و حوصلہ لے کر
آدمی بھی لگتا ہے دشت کے غزالوں سا
مارا مارا پھرتا ہے جنسِ بے بہا لے کر
عشق کے مسافر کو کیا غرض ہے منزل سے
حسن خود ہی آتا ہے عشوہ و ادا لے کر
یہ تمہارا عاشق ہے لوٹتا ہے قدموں میں
دل کے اس درندے کو جاؤں اب کجا لے کر
وہ رفیقِ منزل ہے ساتھ تو نبھانا ہے
میں بھی چل رہا ہوں، دل صبر آزما لے کر
شہرِ دلبراں کیا ہے بے وفاؤں کا گڑھ ہے
ساز کیوں چلے آئے تحفۂ وفا لے کر
ساز دہلوی
No comments:
Post a Comment