Wednesday, 2 March 2022

خواہشوں کو جہاں بنائیں گے

 بس یونہی

آ کسی روز مرنے والوں کو 

یہ یقیں دیں کہ ہم مریں گے نہیں

جسم بدلیں گے بد حواسی کا

بے یقینی کا بد گمانی کا

ایک ابدی خیال میں ڈھل کر 

چاک اور خاک کی حدوں سے پرے

جسم و تجسیم کے مراحل سے 

روح کی جان ہم چھڑائیں گے

سرمدی راگ ہوں گے چاروں طرف

دائمی گیت گائے جائیں گے

ہم لطافت بھرے بدن لے کر

خواہشوں کو جہاں بنائیں گے

یہ دلاسا سہی مگر پھر بھی

نیند کے بے کنار ساگر میں 

مطمئن خواب دیکھنے کے لیے 

یہ یقیں اس قدر ضروری ہے

جس قدر سانس زندگی کے لیے


شاہد فیروز

No comments:

Post a Comment