Wednesday, 2 March 2022

اجنبی سے چہروں میں اجنبی مکانوں میں

 اجنبی سے چہروں میں

اجنبی مکانوں میں 

اجنبی سے چہروں میں 

قطرہ قطرہ روئی ہے 

دھیرے دھیرے پگھلی ہے

زندگی دیا جیسے

وقت کی وبا جیسے

ہیرے جیسی آنکھوں میں

جھلملا کے چمکی ہے 

اک لگن محبت کی 

پھر سے جاگ اٹھی ہے

خواب ہجر جیسا ہے

سانحہ سا گزرا ہے 

خامشی کے صحرا میں

کون بھول سکتا ہے

کون بھول پائے گا

تم سا کون آئے گا

ساتھ خواب بچپن کے

کون گنگنائے گا

خستہ حال یادوں کے

عکس بھی دریدہ ہیں

مکڑیوں کے جالوں سے

راستے خمیدہ ہیں

طوق نامرادی کا 

کون اب سجائے گا

اجنبی مکانوں میں 

اجنبی سے چہروں میں

زندگی بتائے گا

تم کو بھول پائے گا


شائستہ مفتی

No comments:

Post a Comment