اجنبی سے چہروں میں
اجنبی مکانوں میں
اجنبی سے چہروں میں
قطرہ قطرہ روئی ہے
دھیرے دھیرے پگھلی ہے
زندگی دیا جیسے
وقت کی وبا جیسے
ہیرے جیسی آنکھوں میں
جھلملا کے چمکی ہے
اک لگن محبت کی
پھر سے جاگ اٹھی ہے
خواب ہجر جیسا ہے
سانحہ سا گزرا ہے
خامشی کے صحرا میں
کون بھول سکتا ہے
کون بھول پائے گا
تم سا کون آئے گا
ساتھ خواب بچپن کے
کون گنگنائے گا
خستہ حال یادوں کے
عکس بھی دریدہ ہیں
مکڑیوں کے جالوں سے
راستے خمیدہ ہیں
طوق نامرادی کا
کون اب سجائے گا
اجنبی مکانوں میں
اجنبی سے چہروں میں
زندگی بتائے گا
تم کو بھول پائے گا
شائستہ مفتی
No comments:
Post a Comment