Monday, 17 July 2023

دیواروں کے حرف مٹانا ٹھیک نہیں

 دیواروں کے حرف مٹانا ٹھیک نہیں

سچائی کو یوں جُھٹلانا ٹھیک نہیں

خود کیسے اطوار ہیں ان کے سوچیں تو

جو کہتے ہیں؛ یار زمانہ ٹھیک نہیں

آئینے اور سپنے ایک ہی جیسے ہیں

آئینوں سے جی بہلانا ٹھیک نہیں

جب پھولوں کے پاس نہ خوشبو رہ پائے

فصلِ گُل کا پھر اِترانا ٹھیک نہیں

میں ہر خواہش اپنے بس میں رکھتا ہوں

اس کا حد سے آگے جانا ٹھیک نہیں

گو منزل کو پانا ہے دشوار مگر

اب رستے سے لوٹ کے جانا ٹھیک نہیں

تیز ہوا ہے اس کو کچھ پل رُکنے دو

اس آندھی میں دِیپ جلانا ٹھیک نہیں

وہ مجھ سے ناراض تو لگتا ہے لیکن

اس احساس کو دل میں لانا ٹھیک نہیں

چھوڑ گیا جو عادل غم کی دلدل میں

اس کی یاد میں اشک بہانا ٹھیک نہیں


عادل صدیقی

شبیر صدیقی

No comments:

Post a Comment