عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام حسینی ماہیے
بہتا ہے فرات کہیں
پیاسے ہی مار دئیے
نہیں اس کی نجات کہیں
٭
پانی کی جھیلیں ہیں
قطرہ نہ ان کو ملا
اب لگتی سبیلیں ہیں
٭
کہیں خیمے جلتے ہیں
قتل کریں خود ہی
پھر ہاتھ بھی ملتے ہیں
٭
یوں تیر جو کستے ہو
کون نشانہ ہے
تم کس پہ برستے ہو
٭
بڑی سخت چٹانیں تھیں
پیاس سے بچوں کی
جب لب پہ جانیں تھیں
٭
اک شور قیامت ہے
مٹی کربل کی
آنسو ہے، ندامت ہے
٭
کوئی بھوکا پیا سا تھا
نیزے پہ سر جس کا
وہ تیراؐ نواسا تھا
٭
یہ درد ہمارے ہیں
پانی کے قطرے کو
ترسے ترے پیارے ہیں
٭
وہ سب کو پکار آئی
پانی کے بدلے میں
تیروں کی بو چھاڑ آئی
٭
پانی کا سوالی تھا
نانا نبیؐ جس کا
کوثر کا والی تھا
٭
باطل سے نہ ڈرتا تھا
سر تھا نیزے پر
قرآن وہ پڑھتا تھا
٭
وہ جیت کے ہار گئے
تیر چلائے جو
انہیں خود ہی مار گئے
٭
جب غم کی گھٹا چھائی
پیٹتی سر اپنا
کربل کی قضا آئی
٭
یہ کیسی شقاوت ہے
فوج یزیدی پر
لعنت ہے، ملامت ہے
٭
کربل میں چلی آندھی
چادریں سر سے اُڑیں
بربادی ہے بربادی
٭
گھر اتنا بھی دور نہ تھا
حق کے پرچم کا
جھکنا منظور نہ تھا
٭
ہوا خون امیدوں کا
سہرا لکھتی ہوں
کربل کے شہیدوں کا
٭
وہ فاطمہؑ کا جایا
خاک پہ سجدہ کیا
جب وقت نماز آیا
٭
دیا خون کا نذرانہ
نانا کی امت کی
غلطی کا تھا ہرجانہ
٭
سب فرق مٹا ڈالا
دین تھا نانا کا
گھر بار لٹا ڈالا
٭
ہمیں قرض چکانا ہے
پانی کے بدلے میں
اب خون بہانا ہے
رضیہ اسماعیل
No comments:
Post a Comment