Friday, 28 July 2023

بہتا ہے فرات کہیں پیاسے ہی مار دئیے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام حسینی ماہیے


بہتا ہے فرات کہیں

پیاسے ہی مار دئیے

نہیں اس کی نجات کہیں

٭

پانی کی جھیلیں ہیں

قطرہ نہ ان کو ملا

اب لگتی سبیلیں ہیں

٭

کہیں خیمے جلتے ہیں

قتل کریں خود ہی

پھر ہاتھ بھی ملتے ہیں

٭

یوں تیر جو کستے ہو

کون نشانہ ہے

تم کس پہ برستے ہو

٭

بڑی سخت چٹانیں تھیں

پیاس سے بچوں کی

جب لب پہ جانیں تھیں

٭

اک شور قیامت ہے

مٹی کربل کی

آنسو ہے، ندامت ہے

٭

کوئی بھوکا پیا سا تھا

نیزے پہ سر جس کا

وہ تیراؐ نواسا تھا

٭

یہ درد ہمارے ہیں

پانی کے قطرے کو

ترسے ترے پیارے ہیں

٭

وہ سب کو پکار آئی

پانی کے بدلے میں

تیروں کی بو چھاڑ آئی

٭

پانی کا سوالی تھا

نانا نبیؐ جس کا

کوثر کا والی تھا

٭

باطل سے نہ ڈرتا تھا

سر تھا نیزے پر

قرآن وہ پڑھتا تھا

٭

وہ جیت کے ہار گئے

تیر چلائے جو

انہیں خود ہی مار گئے

٭

جب غم کی گھٹا چھائی

پیٹتی سر اپنا

کربل کی قضا آئی

٭

یہ کیسی شقاوت ہے

فوج یزیدی پر

لعنت ہے، ملامت ہے

٭

کربل میں چلی آندھی

چادریں سر سے اُڑیں

بربادی ہے بربادی

٭

گھر اتنا بھی دور نہ تھا

حق کے پرچم کا

جھکنا منظور نہ تھا

٭

ہوا خون امیدوں کا

سہرا لکھتی ہوں

کربل کے شہیدوں کا

٭

وہ فاطمہؑ کا جایا

خاک پہ سجدہ کیا

جب وقت نماز آیا

٭

دیا خون کا نذرانہ

نانا کی امت کی

غلطی کا تھا ہرجانہ

٭

سب فرق مٹا ڈالا

دین تھا نانا کا

گھر بار لٹا ڈالا

٭

ہمیں قرض چکانا ہے

پانی کے بدلے میں

اب خون بہانا ہے


رضیہ اسماعیل

No comments:

Post a Comment