بے وفا تجھ کو کچھ خبر نہ ہوئی
عرض شرمندۂ اثر نہ ہوئی
جو دوا تُو نے دی تھی زخموں کی
چارہ گر! وہ بھی پُر اثر نہ ہوئی
جانے کیسی بہار آئی ہے؟
شاخ کوئی بھی با ثمر نہ ہوئی
منتظر رات بھر رہے جس کے
شادمانی کی وہ سحر نہ ہوئی
خوش نما منزلِ حیات ہے جو
راحتوں میں فدا! بسر نہ ہوئی
غلام ربانی فدا
No comments:
Post a Comment