Friday 28 July 2023

زینبِ خستہ جگر کا منہ تھا اس کی یال پر

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


زینبِؑ خستہ جگر کا منہ تھا اس کی یال پر

لیتی تھی کلثومؑ گھوڑے کی بلائیں سر بسر

کہتی تھی بانو رکابوں سے لگا کر چشمِ تر

میرا والی ہے کہاں اسوار تیرا ہے کدھر

بیچ میں گھوڑے کو لے کر ایک حشر کا عالم ہوا

بیبیوں میں پہلے حلقہ باندھ کر ماتم ہوا

پیٹنے سے جب کہ بیووں کے قیامت ہوگئی

ناگہاں عابدؑ نے اپنی آنکھ غش سے کھول دی

بولا یوں چلا کے وہ بیمار اے زینبؑ پھوپھی

پیٹتے ہیں سب یہ لاش آئی ہے کس مظلوم کی

رو کے بولی وہ تیرے باباؑ نے سر کٹوایا ہے

گھوڑا خالی سبطِ پیمبرﷺ کا رن سے آیا ہے

سن کے یہ رونے لگا بیمارِ دشت کربلا

مادر باقرؑ سے فرمایا کہ لا میرا عصا

زوجۂ بیمار نے لا کر عصا جس دم دیا

تب عصا کو تھام کر اٹھا وہ غم کا مبتلا

کلمۂ تکبیر کو با چشمِ تر کہتے ہوئے

پاس گھوڑے کے گئے ہائے پدر کہتے ہوئے


دلگیر لکھنوی

لالہ چھنو لال دلگیر

No comments:

Post a Comment