عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ماں سجاتی ہے پسر مقتل میں جانے کے لیے
سوچتی ہے یہ گلا ہے تیر کھانے کے لیے؟
پہلے بالوں کو سنوارا، پھر اُتاری ہے نظر
آئے ہیں شبیرؑ اصغرؑ کو اُٹھانے کے لیے
بولی معصومہ مِرا اصغرؑ نہ مر جائے کہیں
کوئی لے جائے اِسے پانی پلانے کے لیے
ساقئ کوثر کا پوتا موت سے ڈرتا نہیں
خود قضا کو کہہ رہا ہے جلد آنے کے لیے
ماں نے بوسہ دے کے اصغرؑ سے کہا جا الوداع
چھے مہینے تجھ کو پالا، تیر کھانے کے لیے
فاطمہؑ کا لعل تکتا ہے کوئی ایسی جگہ
اک لحد چھوٹی سی صحرا میں بنانے کے لیے
اب علی اصغرؑ نہیں آئے گا مادر سے کہو
کون لائے حوصلہ، ماں کو بتانے کے لیے
مسجدِ کوفہ نہیں ہے کربلا ہے یہ بتول *
جا رہا ہے پھر علیؑ سر کو کٹانے کے لیے
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment