عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کونین کا سردار حسینؑ ابنِ علیؑ ہے
سر چشمۂ انوارِ حسینؑ ابن علیؑ ہے
دانندہ اسرارِ حسینؑ ابن علیؑ ہے
اُمت کا سپردار حسینؑ ابن علیؑ ہے
مقدور کسے مدحِ امامِؑ دو سرا کا
حقا کہ وہ محبوبؑ ہے محبوبِؐ خدا کا
یہ نام در روضۂ رضواں پہ لکھا ہے
پیشانیٔ ہر کوکبِ تاباں پہ لکھا ہے
خورشید کی اس لوح درخشاں پہ لکھا ہے
آنکھیں ہوں تو ہر صفحۂ قرآں پہ لکھا ہے
طاعت سے ریاضت سے نہ احرام سے ہو گا
بس کام شفاعت کا اسی نام سے ہو گا
اس نام میں وہ دبدبہ و اوج و حشم ہے
خورشید کُھلے سر ہے، فلک مجرے کو خم ہے
اک غاشیہ بردار کیے و خسرو و جم ہے
جو بیش سے ہے بیش مقابل میں وہ کم ہے
حق کس نے نمایاں کیا عرفان سے پوچھو
کس طرح سے کامل ہوا ایمان سے پوچھو
اس نام سے وابستہ ہوئی رحمت باری
وہ نامہ سیاہی ہے نہ وہ رجس کی خواری
کامل ہوا دیں ضرب لگی کفر پہ کاری
اسلام کے گلشن میں چلی باد بہاری
کیا چیز محبت ہے، یہ عرفان ہوا ہے
انسان حقیقت میں اب انسان ہوا ہے
یہ زندقۂ کفر کا میلان بڑھا تھا
اسلام فقط نام کو اسلام رہا تھا
ظاہر میں بہم صیغہ اُخوت کا پڑھا تھا
در پردہ ہر اک دشمن ارباب وفا تھا
قائل تھے خدا کے نہ مکافات عمل کے
بندے تھے فقط نفس کے یا لات و ہُبل کے
کچھ لوگ تھے ایسے جنہیں تھا خوف خدا کا
واقف تھے کہ انجام ہے کیا حرص وہوا کا
معلوم تھا رتبہ اُنہیں شاہِ شہداء کا
معمول تھا یہ قول رسولِؐ دو سرا کا
دنیا کے حشم اور نہ اجلال کو مانو
قرآن کے پیرو ہو مِری آلؑ کو مانو
گنتی کے یہ تھے، زر کے پرستار بہت تھے
یہ شاذ تھے اور غاصب و غدار بہت تھے
کم اہل ورع اور بد اطوار بہت تھے
اس باغ میں گل نام کو تھے، خار بہت تھے
پھر بھی یہ دبائے ہوئے تھے اوج یزیدی
آمادہ پُرخاش ہوئی فوج یزیدی
دھوکے سے ہدایت کے سُوئے کوفہ بُلایا
پھر راستے میں شیر کو گمراہوں نے گھیرا
بیعت کا یزید ایسے نجس کی تھا تقاضا
لا حول ولا مانتے کیا سید والاؑ
بے آب و غذا گو مع اطفال و حرم تھے
لغزش نہ ہوئی پھر بھی یہ ان کے ہی قدم تھے
گزری شب عاشور قیامت کا دن آیا
فرزند پیمبرﷺ کی شہادت کا دن آیا
جانبازوں کے اظہار شجاعت کا دن آیا
سرور کے لیے ایسی عبادت کا دن آیا
جو سجدۂ معبود میں یوں سر کو جُھکا دے
رحمت بڑھے اور تاج شفاعت کا پہنا دے
اے عیسئ اسلام تِرے نام کے صدقے
اے زندۂ جاوید تِرے کام کے صدقے
آغاز کے قربان ہوں انجام کے صدقے
کس شان کا پیغام ہے پیغام کے صدقے
محروم نہ ہو گا کبھی اب جوشِ نمو سے
ایماں کا چمن سینچ دیا تُو نے لہو سے
تُو گلشنِ تقدیس کا وہ سر و چماں ہے
پاکی تِرا سایہ ہے صفا تیرا نشاں ہے
اسلام کے پیکر میں تُو ہی روح رواں ہے
اے مرکز تنویر تُرا مثل کہاں ہے
حلقے میں لیے برق سرِ طور کی کرنیں
اک نقطے پہ کھینچ آئی ہیں سب نور کی کرنیں
اے ذبح عظیمؑ، آیۂ تابانِ شہادت
تجھ سے ہے شفق گوں رخِ ایمانِ شہادت
اللہ رے یہ ذوقِ فراوانِ شہادت
ہر تارِ رگِ جاں ہے رگِ جانِ شہادت
اسلام میں اب تک ہے یہ دم خم تِرے دم سے
ہو ہی چکا تھا ورنہ ہم آغوش عدم سے
اے جانِ وفا معنی و تفسیر شہادت
ہر قطرۂ خوں ہے تِرا، تصویر شہادت
جاگی ہے تِرے فیض سے تقدیر شہادت
واللہ، تجھی سے ہے یہ توقیر شہادت
مشہور جہاں حسن گلو سوز ہے تیرا
اے شمعِ حرم شعلہ دل افروز ہے تیرا
اللہ رے شوقِ رخِ گلفامِ شہادت
پیہم لب جاں بخش پہ تھا نام شہادت
محبوب کا پیغام تھا، پیغام شہادت
اس شان سے پھر کیوں نہ ہو اتمام شہادت
قاتل کا اگر ہاتھ رُکا، آنکھ بھر آئی
خنجر نے کمی کی تو رگِ جاں اُبھر آئی
اثر لکھنوی
No comments:
Post a Comment