دار پہ چڑھ کے جو تجدیدِ وفا ہوتی ہے
اس شہادت پہ تو سو جان فدا ہوتی ہے
جن کو دعوائے خِرد ہو ذرا آ کر دیکھیں
عشق کی راہ بہت ہوشربا ہوتی ہے
درد میں دوبی نگاہوں کی زباں ہے گویا
اور باتوں سے گو یہ بات جدا ہوتی ہے
حسن جب سوز محبت سے جلا پاتا ہے
کیا تجلی پسِ فانوسِ وفا ہوتی ہے
ان حسیں آنکھوں میں ہے حسرت الطاف و کرم
دل ہی جانے یہ قیامت کی ادا ہوتی ہے
صبح تک حالِ دلِ زار پہ رو لو اختر
اس گھڑی درد کے ماروں کی دوا ہوتی ہے
اختر اورینوی
No comments:
Post a Comment