شرط
ہمارے گھر سے کچھ ہی دور قلعے کی پہاڑی ہے
جسے پریوں کا مسکن لوگ کہتے ہیں
اور اس قلعے کے رستے آستانہ ہے
کوئی سید ہے جس کی قید میں اک خوبصورت سی پری ہے
لگا رہتا ہے تانتا اس کے گھر
رنجیدہ ماؤں مسترد شد بیویوں، بدخواہ پھپھیوں کا
اور اس کے کچے گھر اک طاق ہے جس سے پری
ان بدعقیدہ عورتوں کی عرضیوں پر کان دھرتی، حل بتاتی ہے
سیانی عورتیں کہتی ہیں واں کوئی پری نئیں ہے
کہ اس دیوار سے اک مال خانہ منسلک ہے
جس میں چھپ کر شاہ جی کی بیگما آواز کا جادو جگاتی ہے
ارادت مند یا سبحان کہتے ہیں
تجھے معلوم ہے تجھ پیرنی کا میں بڑا ہی معتقد ہوں
ترے کنجِ دہن سے جب کوئی آواز آتی ہے
جو تو آواز کا جادو جگاتی ہے
تو میں خود کو سمندر پار کے
اس شہرِ ہر سُو شور کے ہر شور سے غافل
سُروں کے دیس، پریوں کے جہاں میں
با ادب بیٹھا ہوا محسوس کرتا ہوں
ترے محرابِ رخ پر شعلہ گوں ہونٹوں سے شیریں لفظ سننا
پیر جی کے آستاں کے طاق کے افسون پر سبحان کہنا ہے
تری آواز سننا، غنچۂ گل کا چٹک کر
پھول بن جانے کا سُر سننے کے جیسا ہے
تِرا مسکانا بس اک شرط ہے پہلے ذرا سا مسکرانا
پھر میں بتلاؤں گا تیرا مسکرانا کس کے جیسا ہے
سرشار فقیرزادہ
No comments:
Post a Comment