Sunday 30 July 2023

لاریب کہ الله تعالیٰ تو نے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


لا ریب کہ الله تعالیٰ تُو نے

بندے کو بڑے عیش سے پالا تُو نے

لغزش ہوئی جب بھی تو سنبھالا تُو نے

میرا ہر اک ارمان نکالا تُو نے

امروہے کے پھر جلوے کیے ہیں میں نے

اک پھیرے کے دو عشرے کیے ہیں میں نے


ہاں شکر خدائے دو جہاں ہے مجھے زیب

اس ذات سے جو ذات ہے قطعاً بے عیب

میری مدد ہو جاتی ہے من جانب غیب

صدقے میں حسینؑ ابن علیؑ کے لاریب

یاروں سے ملا دیا ہے مالک تُو نے

امروہہ دکھا دیا ہے مالک تُو نے


ہر ساز اور سامان میں تبدیلی ہے

پالٹ میں اور دالان میں تبدیلی ہے

کب لوگوں کے ایمان میں تبدیلی ہے

مولا کی کہاں شان میں تبدیلی ہے

بگلوں کا عزا خانہ ہے بالکل ویسا

بتیس برس پہلے تھا چھوڑا جیسا


اونٹوں کا وہی نظام الله الله

آرائش کا احتشام الله الله

دلدل کا وہ احترام الله الله

مولا پہ پھر وہ سلام الله الله

حق لکھتے ہیں جو ایسے قلم آتے ہیں

لکڑوں میں بذریہ سے علم آتے ہیں


ہر طول بلد عرض بلد میں مجھ کو

امروہے کی رکھتی تھی عدد میں مجھ کو

اک کشمکش جد و جہد میں مجھ کو

جس جا گیا اس شہر کی حد میں مجھ کو

شاہراؤں پہ بے حد ہی تو تڑپاتیں تھیں

امروہے کی گلیاں مجھے یاد آتی تھیں


یہ شاہ ولایت کی زمیں ہے اے دوست

دنیا میں جواب اس کا نہیں ہے اے دوست

درگاہ بھی حضرت کی یہیں ہے اے دوست

جس جا ہے وہ آراضی حسیں ہے اے دوست

کیسا ہے بتاؤں وہ زمیں کا ٹکڑا

دھرتی پہ ہے فردوس بریں کا ٹکڑا


رخسارہ گیتی پہ سجل امروہہ

امروہے کے لوگوں کا ہے دل امروہہ

دل ہے اگر آب تو گل امروہہ

لکھنو جو بندی ہے تو تل امروہہ

امروہہ پہ دو شہر دل آرا بخشوں

بس ہو تو سمرقند و بخارا بخشوں


دکھلاؤ تو علم کے کنارے یارو

مجلس کے جلوس کے نظارے یارو

میں شہر میں آیا ہوں تمہارے یارو

پیارے یارو ، میرے پیارے یارو

طفلی میں علم بھی میں بناتا تھا یہاں

ٹاٹل کے قلم بھی ميں بناتا تھا یہاں


پھر نام ولی ابن ولی لکھتا تھا

کاغذ پہ حسینؑ ابن علیؑ لکھتا تھا

یہ نام میں پڑھ پڑھ کے جلی لکھتا تھا

منہ میں لیے مصری کی ڈلی لکھتا تھا

اس نام کو کب خانۂ یاقوت میں آج

لکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہوت میں آج


کھل جاتا ہوں جب من کی کلی لکھتا ہوں

یہ وہ ہے قلم جس سے علیؑ لکھتا ہوں

اور ان کو محمدﷺ کا ولی لکھتا ہوں

قرآن کی آیات جلی لکھتا ہوں

کس کے ہیں یہ سب طور میرے پردے میں

لکھتا ہے کوئی اور میرے پردے میں


اس نام کو سنتے ہی چمکتے ہیں قلوب

مشرق مغرب شمال اور جنوب

یہ نام یہ شخصیت ہے ہم کو محبوب

لکھنے پڑھنے میں اور سننے میں بھی خوب

ح س جو ہوں دال تو دین اس کو پڑھو

گر پیش نہ ڈالو تو حسینؑ اس کو پڑھو


خط میرا ہوا سارے جہاں میں مقبول

آیات جمال کا ہے خامے پہ نزول

علم ِ معقول ہو کہ علمِ منقول

مولا کے کرم کا بھی نہیں کوئی اصول

مولا کا کرم کس پہ ہے، مجھ جیسے پر

نازل یہ قلم کس پہ ہے، مجھ جیسے پر


یہ نام حسینؑ بھی وحی ہے گویا

اس نام کا کردار بہت ہے اعلیٰ

اعلی سے بھی اعلیٰ ہے بہت ہے بالا

یہ اسم گرامی ہے خدا نے رکھا

الہام کی یوں جان ہے نام نامی

دل والوں کا ایمان ہے نام نامی


پیاسے ہیں مگر مالک زمزم ہیں حسینؑ

لاریب بہ فیہ فخر دو عالم ہیں حسینؑ

ناز خدا و نازش آدم ہیں حسینؑ

ہیں نور خدا، خیر مجسم ہیں حسینؑ

ہے ظلمت کفر، شر کا پتلا ہے یزید

ہر صورت باطل کا چہیتا ہے یزید


صادقین امروہوی

صادقین احمد نقوی

No comments:

Post a Comment